۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
رمضان المبارک کے انتیسویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! اس مہینے میں مجھے اپنی چادر رحمت میں ڈھانپ دے، مجھے اس میں توفیق اور تحفظ دے، اور میرے قلب کو تہمت کی تیرگیوں سے پاک کردے، اے با ایمان بندوں پر بہت مہربان۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیماہ رمضان کے انتیسویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔’’أللّهُمَّ غَشِّني فيہ بالرَّحْمَة وَارْزُقني فيہ التَّوفيقَ وَالعِصْمَةَ وَطَہر قَلبي مِن غياہبِ التُّهمَة يارَحيماً بِعبادِہ المُؤمنينَ‘‘
خدایا! اس مہینے میں مجھے اپنی چادر رحمت میں ڈھانپ دے، مجھے اس میں توفیق اور تحفظ دے، اور میرے قلب کو تہمت کی تیرگیوں سے پاک کردے، اے با ایمان بندوں پر بہت مہربان۔

خدا وند عالم کے عظیم صفات میں سے ایک صفت رحمت ہے۔ اس کے اسماء حسنیٰ میں رحمٰن و رحیم ہیں جو اسی صفت عالیہ کے ترجمان ہیں۔
سورہ توبہ کے علاوہ قرآن کریم کے ہر سورہ کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحم سے ہے۔ جسمیں اللہ کا نام اسکی اسی عظیم صفت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے اللہ کو اپنی یہ صفت کتنی محبوب ہے اور جب اس کو محبوب ہے تو اس میں برکات و فوائد بھی کتنے محبوب ہوں گے۔
صرف ایک آیت ہی نہیں بلکہ اللہ نے پورا سورہ رحمٰن نازل کیا اور اس سورہ میں اپنی رحمتوں اور نعمتوں کو ذکر کیا۔
نیز قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنی رحمت کا تذکرہ کیا ہے۔
’’کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ۔‘‘ (الانعام:۵۴)
’’ تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرر دے لی ہے۔‘‘
’’رَبُّکُمْ ذُو رَحْمَۃٍ وَاسِعَۃٍ۔‘‘ (الانعام:۱۴۷)
’’تمہارا پروردگار بڑی وسیع رحمت والا ہے۔‘‘
’’وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ۔‘‘(الاعراف:۱۵۶)
’’ اور میری رحمت ہر شے پر وسیع ہے۔‘‘
’’وَرَبُّکَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَۃِ۔‘‘(الکہف:۵۸)
’’آپ کا پروردگار بڑا بخشنے والا اور صاحبِ رحمت ہے ۔‘‘
فرشتوں کا یہ قول بھی قرآن میں نقل ہوا ہے:
’’رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَعِلْمًا۔ ‘‘ (الغافر:۷)
’’خدایا تیری رحمت اور تیرا علم ہر شے پر محیط ہے۔‘‘
قرآن کریم کے بعد جب احادیث معصومین علیہم السلام پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں وہاں بھی ارحم الراحمین کی رحمت کے جلوے جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں۔
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: خدا وند عالم اپنے بندوں پر رحیم ہے۔ اس نے اپنی رحمت سے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم کیا جس میں سے ایک حصہ کو اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کیا اور اسی (حصہ) کے سبب لوگ ایک دوسرے پر مہربان ہیں اور مائیں اپنی اولاد کے لئے مہربان ہیں۔قیامت کے دن اس (ایک حصہ) رحمت سے باقی ۹۹ حصے ملحق کر دے گا اور ان تمام کے ساتھ امت رسولؐ پر رحم کرے گا۔ (مستدرک سفینۃ البحار جلد 4، صفحہ 135)
مولا علی علیہ السلام کی اس حدیث شریف سے اللہ کی رحمت کی وسعت کو سمجھا جا سکتا ہے کہ جب اس نے اپنی رحمت کا ایک فیصد بندوں پر تقسیم کیا تو لوگ ایک دوسرے پر مہربان نظر آتے ہیں۔ دور حاضر کی تمام فتنہ انگیزیوں ۔ رنگ و نسل اور مذہبی تعصب کے باوجود لوگ ایک دوسرے کے لئے مہربان نظر آتے ہیں ۔ صرف زبانی ہی نہیں بلکہ عمل سے بھی رحمت و مہربانی کی وہ دلیلیں دیتے ہیں جو ناقابل انکار ہیں۔ لوگوں کی ایک دوسرے سے محبت سے کہیں زیادہ والدین خصوصاً ماں کی محبت اولاد کے ساتھ ہے۔ جس کا اقرار بلا تفریق مذہب و ملت ہر بشر کرتاہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ چاہے لوگوں کی ایک دوسرے سے محبت ہو یا والدین کی اولاد سے محبت ہو ۔ یہ تمام محبتیں رحمٰن و رحیم پروردگار کی محبت کے ایک فیصدی حصے کا اثر ہے اور یہ بھی اسی کے امر اور مرضی کے زیر سایہ ہے کہ اگر اس کا امر نہ ہو تو نہ کوئی انسان کسی سے محبت کر سکتا ہے اور نہ ہی والدین اولاد سے محبت کر سکتے ہیں۔ روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک خاتون بیماری اور کمزوری کے باوجود اپنے بیٹے کو آغوش میں لئے جا رہی تھی ۔ اس زمانے کے نبی نے بارگاہ معبود میں عرض کیا کہ خدایا! یہ ماں اپنے بیٹے پر کس قدر مہربان ہے۔ ارشاد ہو ا کہ یہ میرا امر ہے، یہ میری قدرت ہے۔ اگر میرا امر نہ ہوتا تو یہ کبھی بھی یہ زحمت برداشت نہ کرتی ۔ اچانک کیا دیکھا گیا کہ اسی ماں نے اپنی اولاد کو زمین پر پھینک دیا ۔ ارشاد ہوا اب یقین ہو گیا ہو گا کہ یہ محبت ہمارے امر کے تحت ہے کہ جب ہمارا امر تھا تو محبت بچے کے شامل حال ہوئی لیکن جب ہمارا امر نہیں ہوا تو اسی ماں نے بچے کو پھینک دیا۔ اس واقعہ سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اصل رحمت اور محبت بلکہ منبع رحمت و محبت پروردگار ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: روز قیامت اللہ اپنی رحمت کو اس طرح پھیلائے گا کہ جسے دیکھ کر شیطان کو بھی لالچ آئے گی۔ (. بحارالانوار، جلد7، صفحہ 287، حدیث 1)
ظاہر جب ایک فیصدی رحمت کا یہ عالم ہے کہ اس کی رحمت نا قابل انکار ہے تو جب سو فیصد رحمت کے جلوے ہوں گے تو اس کا کیا عالم ہوگا۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے کہا گیا کہ حسن بصری کہتے ہیں کہ تعجب یہ نہیں کہ لوگ گمراہ اور ہلاک ہوتے ہیں بلکہ تعجب اس بات پر ہے کیسے گمراہی اور ہلاکت کے بعد نجات پا جاتے ہیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: مجھے تعجب اس بات پر نہیں کہ کیسے لوگ نجات پا جاتے ہیں بلکہ تعجب اس بات پر ہے کہ اس کی رحمت کی وسعت کے باوجود کیسے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ (سفینۃ البحار، جلد 1، صفحہ 517)
قرآن واحادیث نے ہمیں ان اسباب کی ہدایت کی ہے جو انسان کو رحمت خدا سے نزدیک کرتے ہیں ۔ جیسے اللہ پر ایمان، خدا، رسولؐ اور ائمہ ؑ کی اطاعت، تلاوت قرآن کے ہنگام ادب اور سکوت، مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا، مصیبت پر صبر اور امر اہلبیتؑ کا احیاء ، جسکا ذکر امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا۔
اسی طرح موانع رحمت بھی بیان ہوئے ہیں۔ جیسے آیات الہی کا انکار، گناہ، کھلم کھلا گناہ کرنا، حق کو چھپانا، فتنہ و فساد وغیرہ
’’وَارْزُقني فيہ التَّوفيقَ وَالعِصْمَةَ‘‘ مجھے اس میں توفیق اور تحفظ دے۔
بیان کیا جا چکا ہے کہ انسان کی ساری نیکیوں کا دارو مدار توفیق الہی پر ہے۔ بلکہ یہ توفیق ہی اعمال کی بنیاد ہے۔ خطیب الانبیاء حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنے اعمال کی نسبت خدا کی جانب دیتے ہوئے اپنی قوم سے کہا کہ یہ توفیق مجھے اللہ ہی دیتا ہے۔ یعنی اگر اس کی توفیق شامل حال نہ ہو تو کسی کے لئے کار خیر کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔
’’وَطَہر قَلبي مِن غياہبِ التُّهمَة‘‘اور میرے قلب کو تہمت کی تیرگیوں سے پاک کردے۔
قلب کی طہارت اور پاکیزگی پر ہی انسان کی عظمت و فضیلت کا دارومدار ہے۔ اگر قلب سالم نہ ہو تو انسان کار خیر تو دور اس کی نیت اور ارادہ سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ وہ قلب کامیاب ہے جو قلب سلیم ہو۔
خدایا! مجھ پر رحم فرما، میری توفیقات میں اضافہ فرما اور میرے دل کو پاک کر دے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .